RSS

اوریا مقبول جان کی ایک حکایات نما تحریر اور اس کا جواب

24 Mar

مکہّ میں ابوسفیان بہت بے چین تھا ،
” آج کچھ ھونے والا ھے ” ( وہ بڑبڑایا ) اسکی نظر آسمان کی طرف باربار اٹھ رھی تھی ۔
اسکی بیوی ” ھند ” جس نے حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اسکی پریشانی دیکھ کر اسکے پاس آگئ تھی
” کیا بات ھے ؟ کیوں پریشان ھو ؟ ”
” ھُوں ؟ ” ابوُ سُفیان چونکا ۔ کُچھ نہیں ۔۔ ” طبیعت گھبرا رھی ھے میں ذرا گھوُم کر آتا ھوُں ” وہ یہ کہہ کر گھر کے بیرونی دروازے سے باھر نکل گیا
مکہّ کی گلیوں میں سے گھومتے گھومتے وہ اسکی حد تک پہنچ گیا تھا
اچانک اسکی نظر شہر سے باھر ایک وسیع میدان پر پڑی ،
ھزاروں مشعلیں روشن تھیں ، لوگوں کی چہل پہل انکی روشنی میں نظر آرھی تھی
اور بھنبھناھٹ کی آواز تھی جیسے سینکڑوں لوگ دھیمی آواز میں کچھ پڑھ رھے ھوں
اسکا دل دھک سے رہ گیا تھا ۔۔۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب جاکر دیکھے گا کہ یہ کون لوگ ھیں
اتنا تو وہ سمجھ ھی چکا تھا کہ مکہّ کے لوگ تو غافلوں کی نیند سو رھے ھیں اور یہ لشکر یقیناً مکہّ پر چڑھائ کیلیئے ھی آیا ھے
وہ جاننا چاھتا تھا کہ یہ کون ھیں ؟
وہ آھستہ آھستہ اوٹ لیتا اس لشکر کے کافی قریب پہنچ چکا تھا
کچھ لوگوں کو اس نے پہچان لیا تھا
یہ اسکے اپنے ھی لوگ تھے جو مسلمان ھوچکے تھے اور مدینہ ھجرت کرچکے تھے
اس کا دل ڈوب رھا تھا ، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا ھے
اور یقیناً ” مُحمّد ﷺ اپنے جانثاروں کیساتھ مکہّ آپہنچے تھے ”
وہ چھپ کر حالات کا جائزہ لے ھی رھا تھا کہ عقب سے کسی نے اسکی گردن پر تلوار رکھ دی
اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا
لشکر کے پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا تھا
اور اب اسے ” بارگاہ محمّد ﷺ میں لیجا رھے تھے ”
اسکا ایک ایک قدم کئ کئ من کا ھوچکا تھا
ھر قدم پر اسے اپنے کرتوت یاد آرھے تھے
جنگ بدّر ، احد ، خندق ، خیبر سب اسکی آنکھوں کے سامنے ناچ رھی تھیں
اسے یاد آرھا تھا کہ اس کیسے سرداران مکہّ کو اکٹھا کیا تھا ” محمّد کو قتل کرنے کیلیئے ”
کیسے نجاشی کے دربار میں جاکر تقریر کی تھی کہ ۔۔۔۔
” یہ مسلمان ھمارے غلام اور باغی ھیں انکو ھمیں واپس دو ”
کیسے اسکی بیوی ھندہ نے امیر حمزہ کو اپنے غلام حبشی کے ذریعے شہید کروا کر انکا سینہؑ چاک کرکے انکا کلیجہ نکال کر چبایا اور ناک اور کان کاٹ کر گلے میں ھار بنا کر ڈالے تھے
اور اب اسے اسی محمّد ﷺ کے سامنے پیش کیا جارھا تھا
اسے یقین تھا کہ ۔۔۔
اسکی روایات کے مطابق اُس جیسے ” دھشت گرد ” کو فوراً تہہ تیغ کردیا جاۓ گا ۔
اُدھر ۔۔۔۔
” بارگاہ رحمت للعالمین ﷺ میں اصحاب رض جمع تھے اور صبح کے اقدامات کے بارے میں مشاورت چل رھی تھی کہ کسی نے آکر ابوسفیان کی گرفتاری کی خبر دے دی
” اللہ اکبر ” خیمہؑ میں نعرہ تکبیر بلند ھوا
ابوسفیان کی گرفتاری ایک بہت بڑی خبر اور کامیابی تھی
خیمہؑ میں موجود عمر ابن الخطاب اٹھ کر کھڑے ھوۓ اور تلوار کو میان سے نکال کر انتہائ جوش کے عالم میں بولے ۔۔
” اس بدبخت کو قتل کردینا چاھیئے شروع سے سارے فساد کی جڑ یہی رھا ھے ”
چہرہ مبارک رحمت للعالمین ﷺ پر تبسّم نمودار ھوا
اور انکی دلوں میں اترتی ھوئ آواز گونجی
” بیٹھ جاؤ عمر ۔۔ اسے آنے دو ”
عمر ابن خطاب آنکھوں میں غیض لیئے حکم رسول ﷺ کی اطاعت میں بیٹھ تو گۓ لیکن ان کے چہرے کی سرخی بتا رھی تھی کہ انکا بس چلتا تو ابوسفیان کے ٹکڑے کرڈالتے
اتنے میں پہرے داروں نے بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ھونے کی اجازت چاھی
اجازت ملنے پر ابوسفیان کو رحمت للعالمین کے سامنے اس حال میں پیش کیا گیا کہ اسکے ھاتھ اسی کے عمامے سے اسکی پشت پر بندھے ھوۓ تھے
چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی
اور اسکی آنکھوں میں موت کے ساۓ لہرا رھے تھے
لب ھاۓ رسالت مآب ﷺ وا ھوۓ ۔۔۔
اور اصحاب رض نے ایک عجیب جملہؑ سنا
” اسکے ھاتھ کھول دو اور اسکو پانی پلاؤ ، بیٹھ جاؤ ابوسفیان ۔۔ !! ”
ابوسفیان ھارے ھوۓ جواری کی طرح گرنے کے انداز میں خیمہؑ کے فرش پر بچھے قالین پر بیٹھ گیا ۔
پانی پی کر اسکو کچھ حوصلہ ھوا تو نظر اٹھا کر خیمہؑ میں موجود لوگوں کی طرف دیکھا
عمر ابن خطاب کی آنکھیں غصّہ سے سرخ تھیں
ابوبکر ابن قحافہ کی آنکھوں میں اسکے لیئے افسوس کا تاثر تھا
عثمان بن عفان کے چہرے پر عزیزداری کی ھمدردی اور افسوس کا ملا جلا تاثر تھا
علیؑ ابن ابوطالبؑ کا چہرہ سپاٹ تھا
اسی طرح باقی تما اصحاب کے چہروں کو دیکھتا دیکھتا آخر اسکی نظر محمّد ﷺ کے چہرہ مبارک پر آکر ٹھر گئ
جہاں جلالت و رحمت کے خوبصورت امتزاج کیساتھ کائنات کی خوبصورت ترین مسکراھٹ تھی
” کہو ابوسفیان ؟ کیسے آنا ھوا ؟؟ ”
ابوسفیان کے گلے میں جیسے آواز ھی نہیں رھی تھی
بہت ھمّت کرکے بولا ۔۔ ” مم ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ھوں ؟؟ ”
عمر ابن خطاب ایک بار پھر اٹھ کھڑے ھوۓ
” یارسول اللہ ﷺ یہ شخص مکّاری کررھا ھے ، جان بچانے کیلیئے اسلام قبول کرنا چاھتا ھے ، مجھے اجازت دیجیئے ، میں آج اس دشمن ازلی کا خاتمہؑ کر ھی دوں ” انکے مونہہ سے کف جاری تھا ۔۔۔
” بیٹھ جاؤ عمر ۔۔۔ ” رسالت مآب ﷺ نے نرمی سے پھر فرمایا
” بولو ابوسفیان ۔۔ کیا تم واقعی اسلام قبول کرنا چاھتے ھو ؟ ”
” جج ۔۔ جی یا رسول اللہ ﷺ ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ھوں میں سمجھ گیا ھوں کہ آپؐ اور آپکا دین بھی سچّا ھے اور آپ کا خدا بھی سچّا ھے ، اسکا وعدہ پورا ھوا ۔ میں جان گیا ھوں کہ صبح مکہّ کو فتح ھونے سے کوئ نہیں بچا سکے گا ”
چہرہؑ رسالت مآب ﷺ پر مسکراھٹ پھیلی ۔۔
” ٹھیک ھے ابوسفیان ۔۔
تو میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ھوں اور تمہاری درخواست قبول کرتا ھوں جاؤ تم آزاد ھو ، صبح ھم مکہّ میں داخل ھونگے انشاء اللہ
میں تمہارے گھر کو جہاں آج تک اسلام اور ھمارے خلاف سازشیں ھوتی رھیں ، جاۓ امن قرار دیتا ھوں ، جو تمہارے گھر میں پناہ لےلے گا وہ محفوظ ھے ، ”
۔
ابوسفیان کی آنکھیں حیرت سے پھٹتی جا رھی تھیں
۔
” اور مکہّ والوں سے کہنا ۔۔ جو بیت اللہ میں داخل ھوگیا اسکو امان ھے ، جو اپنی کسی عبادت گاہ میں چلا گیا ، اسکو امان ھے ، یہاں تک کہ جو اپنے گھروں میں بیٹھ رھا اسکو امان ھے ،
جاؤ ابوسفیان ۔۔۔ جاؤ اور جاکر صبح ھماری آمد کا انتظار کرو
اور کہنا مکہّ والوں سے کہ ھماری کوئ تلوار میان سے باھر نہیں ھوگی ، ھمارا کوئ تیر ترکش سے باھر نہیں ھوگا
ھمارا کوئ نیزہ کسی کی طرف سیدھا نہیں ھوگا جب تک کہ کوئ ھمارے ساتھ لڑنا نہ چاھے ”
۔
ابوسفیان نے حیرت سے محمّد ﷺ کی طرف دیکھا اور کانپتے ھوۓ ھونٹوں سے بولنا شروع کیا ۔۔
” اشھد ان لاالہٰ الا اللہ و اشھد ان محمّد عبدہُ و رسولہُ ”
۔
سب سے پہلے عمر ابن خطاب آگے بڑھے ۔۔ اور ابوسفیان کو گلے سے لگایا
” مرحبا اے ابوسفیان ، اب سے تم ھمارے دینی بھائ ھوگۓ ، تمہاری جان ، مال ھمارے اوپر ویسے ھی حرام ھوگیا جیسا کہ ھر مسلمان کا دوسرے پر حرام ھے ، تم کو مبارک ھو کہ تمہاری پچھلی ساری خطائیں معاف کردی گئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے پچھلے گناہ معاف فرماۓ ”
ابوسفیان حیرت سے خطاب کے بیٹے کو دیکھ رھا تھا
یہ وھی تھا کہ چند لمحے پہلے جسکی آنکھوں میں اس کیلیئے شدید نفرت اور غصّہ تھا اور جو اسکی جان لینا چاھتا تھا
اب وھی اسکو گلے سے لگا کر بھائ بول رھا تھا ؟
یہ کیسا دین ھے ؟
یہ کیسے لوگ ھیں ؟
سب سے گلے مل کر اور رسول اللہ ﷺ کے ھاتھوں پر بوسہ دے کر ابوسفیان خیمہؑ سے باھر نکل گیا
” وہ دھشت گرد ابوسفیان کہ جس کے شر سے مسلمان آج تک تنگ تھے انہی کے درمیان سے سلامتی سے گزرتا ھوا جارھا تھا ، جہاں سے گزرتا ، اس اسلامی لشکر کا ھر فرد ، ھر جنگجو ، ھر سپاھی جو تھوڑی دیر پہلے اسکی جان کے دشمن تھے اب آگے بڑھ بڑھ کر اس سے مصافحہ کررھے تھے ، اسے مبارکباد دے رھے تھے ، خوش آمدید کہہ رھے تھے ۔۔ ”
اگلے دن ۔۔۔
مکہّ شہر کی حد پر جو لوگ کھڑے تھے ان میں سب سے نمایاں ابوسفیان تھا
مسلمانوں کا لشکر مکہّ میں داخل ھوچکا تھا
کسی ایک تلوار ، کسی ایک نیزے کی انی ، کسی ایک تیر کی نوک پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا
لشکر اسلام کو ھدایات مل چکی تھیں
کسی کے گھر میں داخل مت ھونا
کسی کی عبادت گاہ کو نقصان مت پہنچانا
کسی کا پیچھا مت کرنا
عورتوں اور بچوں پر ھاتھ نہ اٹھانا
کسی کا مال نہ لوٹنا
بلال حبشئ آگے آگے اعلان کرتا جارھا تھا
” مکہّ والو ۔۔۔ رسول خدا ﷺ کی طرف سے ۔۔۔
آج تم سب کیلیئے عام معافی کا اعلان ھے ۔۔
کسی سے اسکے سابقہ اعمال کی بازپرس نہیں کی جاۓ گی ،
جو اسلام قبول کرنا چاھے وہ کرسکتا ھے
جو نہ کرنا چاھے وہ اپنے سابقہ دین پر رہ سکتا ھے
سب کو انکے مذھب کے مطابق عبادت کی کھلی اجازت ھوگی
صرف مسجد الحرام اور اسکی حدود کے اندر بت پرستی کی اجازت نہیں ھوگی
کسی کا ذریعہ معاش چھینا نہیں جاۓ گا
کسی کو اسکی ارضی و جائیداد سے محروم نہیں کیا جاۓ گا
غیر مسلموں کے جان و مال کی حفاظت مسلمان کریں گے
اے مکہّ کے لوگو ۔۔۔۔ !! ”
۔
ھندہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی لشکر اسلام کو گزرتے دیکھ رھی تھی
اسکا دل گواھی نہیں دے رھا تھا کہ ” حضرت حمزہ ” کا قتل اسکو معاف کردیا جاۓ گا
لیکن ابوسفیان نے تو رات یہی کہا تھا کہ ۔۔۔
” اسلام قبول کرلو ۔۔ سب غلطیاں معاف ھوجائیں گی ”
مکہّ فتح ھوچکا تھا
بنا ظلم و تشدد ، بنا خون بہاۓ ، بنا تیر و تلوار چلاۓ ،
لو گ جوق در جوق اس آفاقی مذھب کو اختیار کرنے اور اللہ کی توحید اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے مسجد حرام کے صحن میں جمع ھورھے تھے
اور تبھی مکہّ والوں نے دیکھا ۔۔۔
” اس ھجوم میں ھندہ بھی شامل تھی ”
۔
یہ ھوا کرتا تھا اسلام ۔۔ یہ تھی اسکی تعلیمات ۔۔ یہ سکھایا تھا رحمت للعالمین ﷺ نے…

اپنی تمام تر جاذبیت اور اثر انگیزی کے باوجود بھی اوریا مقبول جان کی یہ تحریر ایک افسانہ ہی قرار دی جاسکتی ہے، کیونکہ اس میں حقیقی شخصیات کا استعمال فرضی واقعات کے حوالوں سے کیا گیا ہے- غزوہ بدر، احد، خندق اور خیبر میں حضرت ابو سفیانؓ کے کرتوت؟ اوریا صاحب روانی قلم میں شاید یہ بھول گئے کہ خیبر کی جنگ یہودیوں سے ہوئی تھی نہ کہ مشرکین مکہ سے- تاریخ شاہد ہے کہ غزوہ بدر مین حضرت ابو سفیانؓ شریک نہیں تھے، یہ جنگ ابو جہل کی ایماء پر ہوئی، بلکہ حضرت ابو سفیانؓ جن کا قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا، انہوں نے یہ پیغام مکہ بھجوادیا تھا کہ ہم مدینہ کا راستہ بحفاظت پار کرچکے ہیں، لہذا اب اس جانب آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ابوجہل تھا، جو مکہ سے مشرکین کا لشکر لیکر اپنے تئیں اسلام کے خاتمہ کے لیے نکلا تھا— جن لوگون نے سورہ احزاب کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ جنگ خندق مین مسلمانوں اور کافروں کے درمیان کوئی باقاعدہ مدبھیڑ نہیں ہوئی تھی– حضرت ابوسفیانؓ کا مسلمانوں سے مقابلہ صرف احد کے میدان میں ہوا ہے- باقی غزوات کا اضافہ صاحب مضمون کی جولانی طبع کو آشکار کر رہا ہے۔ اور احد کی جنگ کا پانسا بھی بنیادی طور پر حضرت خالدؓ بن ولید کی وجہ سے پلٹا تھا، جنہوں نے دوبارہ مڑ کر ایک بار پھر حملہ کروادیا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت خالدؓ بن ولید کے تو قبل از اسلام واقعات ایسی رکاکت کے ساتھ نہیں بیان کیے جاتے، جیسا حضرت ابوسفیانؓ کے سلسلے میں کیا جاتا ہے۔ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔

ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺ کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنانے والوں میں انکا نام بھی آرائش مضمون کی نیت سے بڑھادیا گیا ہے، (ان سے پہلے بھی بعض لوگوں نے بڑھایا ہے، جن میں بعض نام “معتبر” بھی قرار دیے جاتے ہیں) ورنہ بعض روایات تو بتاتی ہیں کہ اس منصوبہ میں بنی عبدالمناف کا کوئی بندہ شامل ہی نہیں تھا، اور اگر بالفرض ہوتا بھی تو اس وقت جناب ابی سفیانؓ اپنے قبیلے کے سردار نہیں تھے، آپکو سرداری تو غزوہ بدر کے بعد ملی تھی۔

نجاشی کے دربار میں تو نجانے کیا بات ہوئی، لیکن بخاری کی روایت قیصر کے دربار کا ضرور نقشہ کھینچ دیتی ہے، جہاں ہرقل نے جناب ابوسفیانؓ کو اس متعلق معلومات کے لیے طلب کیا تھا۔ مسلمانوں کے سیاسی مخالف ہونے کے باوجود بھی آپ نے ہر سوال کا اتنی سچائی سے جواب دیا کہ قیصر کو نبی پاکؐ کے رسول ہونے میں کوئی شک نہیں رہا، گویا مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے اسلام کے پیغام کو درست طریقہ سے غیر مسلم معاشرے تک پہنچایا۔  کیا یہ بات خود کسی شخص کے اعلی کردار کی مثال نہیں ہے۔

حضرت ابوسفیانؓ کی طرح انکی اہلیہ حضرت ہندؓ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے والا وحشیؓ (جو کہ بعد میں مسلمان ہوئے، اور صحابی کے درجہ پر فائز ہوئے، اور یمامہ کی جنگ میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں) وہ حضرت ہندؓ کے غلام نہیں تھے، جب حضرت ہندؓ اسکی مالک ہی نہیں تھیں، تو آزاد کرنے کی شرط چہ معنی دارد۔۔ دراصل وہ جبیرؓ بن مطعم کے غلام تھے، اور جبیر نے اپنے چچا کا بدلہ لینے کے لیے وحشی سے ڈیل کی تھی کہ اگر اس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تو وہ اسکو آزاد کردیگا۔ یہ پورا واقعہ صحیح بخاری میں درج ہے، اور حضرت ہندؓ کا کہیں دور دور تک تذکرہ نہیں، لیکن اسلامی تاریخ کی افسانہ نگاری کرنے والوں نے یہاں بھی بددیانتی سے کام لیا اور وحشی کو حضرت ہندؓ کا غلام بناکر کلیجہ چبانے کی پوری کہانی امت میں پھیلادی ہے۔

مزید یہ کہ حضرت عمرؓ سے یہ منسوب کرنا کہ انہوں نے گرفتاری کے قوراً بعد حضرت ابو سفیانؓ کے قتل کا مشورہ دیدیا تھا، دربار نبوی میں حضرت عمرؓ کی پیچ و تابی اور حضرت عثمانؓ کی دکھ بھری نگاہوں کی منظر کشی، میر انیس کے مرثیوں کے قبیل سے تو ہو سکتی ہے، حقیقت سے اس کا تعلق ہونا بعید از قیاس ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ آخر حضرت عمرؓکس حق پر قتل کا مشورہ دے سکتے تھے۔ وہ کلمہ گو تھے، مسلمان تھے، قران کے تابع تھے، جب سورہ محمد میں جنگی قیدیوں سے سلوک کا حکم بتایا جاچکا تھا، تو کسی صحابی کی کیا مجال ہوتی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو خلاف قران سلوک کرنے کا مشورہ دیتا– یہ ساری افسانہ نگاری بیان کرتی ہے، کہ مضامین لکھتے وقت ہمارے مفکرین کس قدر خوف خدا سے عاری ہوجاتے ہیں، قران، حدیث تاریخ سب کچھ تیاگ کر بس ایسی تحریر لکھنا چاہتے ہیں کہ پڑھنے والا بس “سبحان اللہ” کہہ کر سر دھننے لگے، اور ایک زہریلی پڑیا کو شکر سمجھ کر پھانک لے۔

حضرت ابو سفیان کا بحیثیت غیر مسلم کردار دیکھنا ہو، تو غزوہ بدر کے فوراً بعد کا ماحول دیکھا جائے، جس میں ۷۰ کفار مارے گئے، مکہ والوں کی رعونت خاک میں ملی، انتقام کی آگ گھر گھر میں پھیلی ہوئی تھی، اور یہ وہ وقت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی بڑ ی شہزادی حضرت سیدہ زینبؓ مکہ سے مدینہ ہجرت کا قصد کرتی ہیں۔ مکہ کے جذباتی ماحول میں لوگوں نے انؓ کو روکنا چاہا، یہاں تک کہ ایک شخص نے سیدہؓ کو نیزہ تک ماردیا تھا، یہ حضرت ابوسفیانؓ اور انکی اہلیہ حضرت ہندؓ کی معاملہ فہمی تھی، کہ انہوں نے مکہ والوں کے جذبات کو قابو میں لاتے ہوئے، سیدہ زینبؓ کو مکہ سے بحافظت نکالنے کا سبب پیدا کیا۔ اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب عتبہ، شیبہ سمیت انکے اپنے خاندان کے کئی افراد غزوہ بدر میں مارے گئے تھے،  اور اپکا بیٹا یزید بن ابی سفیان اس وقت مسلمانوں کی قید میں تھا۔ عام حالت میں تو اوسط ذہنیت کے لوگ ایسے معاملات کو سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن سیاسی معاملات کو سماجی معاملات سے الگ رکھا جانا چاہیے، اس پر عمل کرکے کیا حضرت ابو سفیانؓ نے اعلی کردار کا مظاہرہ نہیں کیا؟؟؟ مزید یہ کے انکی بیٹی حضرت ام حبیبہؓ کو ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہوا، فتح مکہ کے بعد انکو تیماء کا عامل مقرر کیا گیا، انکے دو صاحب زادوں یزیدؓ اور معاویہؓ کو کاتب وحی مقرر کیا گیا۔ کیا نبی پاک ﷺ کے سامنے حضرت ابوسفیان کا پورا کردار نہیں تھا؟؟؟؟ انکو تو نعوذ باللہ کسی اوریا مقبول کے مضمون کی روشنی میں حضرت ابو سفیانؓ کے کردار کو پرکھنے کی ضرورت نہیں تھی، رسول اللہ کی ﷺ نگاہوں کے سامنے تو سب کچھ موجود تھا، مکی زندگی، ہجرت، بدر، احد، خندق، حدیبیہ، عمرہ قضاء، فتح مکہ، سب کچھ، اگر اسکے بعد بھی خاندان ابی سفیانؓ کے افراد کو اللہ کے رسولؐ نے اتنے اعلی عہدوں پر فائز کیا،ہے تو اسکا مطلب ہے کہ یہ خاندان اللہ کے نبیؐ کی نظر میں معتبر تھا۔ اوریا صاحب سے سوال بنتا ہے کہ جس نبیؐ کے آپ نام لیوا ہیں، تو اس نبیؐ کے طرز عمل سے اتنا بعد کیوں؟؟؟

اسلام قبول کرنے کے بعد انکا خاندان کفر و اسلام کی جنگوں میں بہت فعال رہا ، غزوہ حنین میں انکی شرکت سب کو معلوم ہے۔ بیرون عرب تاریخ اسلام کی پہلی سب سے اہم جنگ، یعنی جنگ یرموک میں انکا پورا خاندان شریک تھا، انکے بیٹے یزیدؓ بن ابی سفیانؓ اس جنگ میں کمانڈر تھے، اور حضرت ابی سفیانؓ اور انکی اہلیہ حضرت ہندؓ باوجود ضعیف العمری کے، اس جنگ میں باقاعدہ موجود رہے۔۔۔ اللہ تعالی ہمیں رسول اللہ ﷺ ، انکی آلؓ اور انکے اصحابؓ سے دلی محبت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

 
Leave a comment

Posted by on March 24, 2019 in Islam, Politics

 

Tags: , , , , , , , , , , ,

Leave a comment